چیمپینز ٹرافی اور دورہ جنوبی افریقہ میں شرم ناک شکست کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کے حوصلے انتہائی پست تھے ۔میڈیا اور سابق کھلاڑیوں نے ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا۔ بورڈ کے معاملات بھی تیزی سے تبدیل ہوئے۔ان حالات میں ٹیم کو ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنا تھا۔ویسٹ انڈیز کی کنڈیشنز پاکستان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔پر کالی آندھی ہمیشہ ہی سے اپنے ہوم گراونڈ پر مشکل حریف ثابت ہوئی ہے اور رواں سال کے دوران کالی آندھی کی پرفارمنس قابل دید رہی۔ لہزا مصباح الیون مندجہ بالا حالات میں ویسٹ انڈیز کی سر زمیں پر اتری۔
پہلے میچ کی پہلی اینگز میں ہی پاکستانی بلے بازوں نے گٹھنے ٹیک دیے۔پاکستان ایک مرتبہ پھر شکست کی طرف جا رہا تھا کہ تبہی آفریدی کا بلا رنز اگلنے لگا۔آفریدی کے شاندار ۷۵ رنز کی بدولت پاکستان اس میچ میں واپس آیا ۔ مصباح نے بھی جم کر اپنی باری کھیلی پر آج آفریدی کا دن تھا ۔ شاید آج ان کی دوستی سات کے ہندسے سے ہو گئی تھی ۔آفریدی کے ہاتھ میں بال کا آنا تھا کہ کالی آندھی کی نیا ڈوبنے لگی۔محض ۱۲ رنز دے کر آفریدی نے ۷ بلے بازوں کو ٹھکانے لگایا یہ ون ڈے کرکٹ کی تایخ کی دوسری بہترین باولنگ پرفارمنس تھی۔پاکستان نے یہ میچ با آسانی جیت کر سیریز میں اپنا کھاتا کھولا۔
اب باری کالی آندھی کی تھی۔دوسرے ہی میچ میں براو الیون نے واپسی کی اور پاکستان کو شکست سے دوچار کیا ۔ ایک مرتبہ پھر پاکستانی بلے باز دھوکا دے گئے۔ایسا محسوس ہوا کہ بلے باز بیٹنگ کرنا ہی بھول گئے ہیں۔عمر اکمل نے کچھ جدوجہد کی پر ٹیم کو کامیابی نہ دلوا سکے۔ناصر جمشید کے رنز بھی کسے کام نہ آئے۔پر اکمل کا فارم میں آنا ایک اچھی نشانی تھی۔عمر اکمل جن کا موازنہ اکثر انڈیا کے ورات کوھلی سے کیا جاتا ہے اب تک پاکستان کو کسی بڑی ووکٹری دلوانے میں ناکام رہے ہیں۔ نئے چیف سلیکٹر معین خان بھی کئی مرتبہ اکمل کی پرفارمنس پر سوالیہ نشان اٹھا چکے ہیں۔ اکمل کا فارم میں واپس آنا شاید اس پریشر کا نتیجہ بھی تھا۔
تیسرا میچ پاکستان کی گرفت میں تھا ۔ ایک مرتبہ پھر مصباح سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔مصباح نے ایک مرتبہ پھر نصف سینچری سکور کی۔مصباح نے تو شاید ہر میچ میں نصف سینچری کی قسم کھا رکھی تھی ۔ انہی کی بدولت پاکستان بورڈ پر ایک اچھا سکور لگانے میں کامیاب ہوا۔ ویسٹ انڈیز کا آغاز کچھ متاثر کن نہ تھا ۔ پر کھیل کے آخری اوور میں بازی پلٹی۔ وہاب ریاض نے آخری اوور میں پندرہ رنز دیے اور میچ ٹائی کروا بیٹھے۔ پر میچ ٹائی ہونے میں اہم کردار اکمل کا تھا۔آخری بال پر کلیر رن آوٹ مس کر دینے کی وجہ سے پاکستان کے ہاتھ سے جیتا ہوا میچ نکل گیا۔پر میچ ٹائی ہونے کی ایک اور وجہ اکمل کا وہ رن بھی تھا جسے امپائیر نے "شارٹ” قرار دیا تھا دراصل وہ لیگل رن تھا۔پر یہی کرکٹ کا حسن ہے۔
یہ ویسٹ انڈیر کی اس سیریز میں آخری بہترین کارکردگی تھی۔آخری دو میچوں میں مصباح کے سامنے کالی آندھی کا کوئی گیند باز نہ ٹک سکا۔چوتھے میچ میں بارش کے پاعث میچ مختصر کر دیا گیا اور پاکستان کو ۳۰ اوورز میں ۱۸۹ کا مشکل حدف ملا ۔پر مصباح تو جیسے جیت کی ٹھان کر آئے تھے۔مصباح نے ۵۳ اسکور بنا کر ٹیم کو فتح دلوائی ۔عمر اکمل نے بھی کپتان کا خوب ساتھ دیا۔اور یوں پاکستان نے سیریز میں ایک بار پھر برتری حاصل کر لی۔
مگر ابھی ویسٹ انڈیز کے تابوت میں آخری کیل گاڑنا باقی تھا۔اس مرتبہ براوو نے عمدہ کاکردگی دکھائی اور محض ۲۷ گیندوں میں ۴۸ رنز سکور کرکے اپنی ٹیم کی پوزیشن مضبوط کی۔پر ایک مرتبہ پھر مصباح نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔آج اوپنرز بھی اچھی فارم میں دکھائی دیے۔احمد شہزاد نے ۶۳ کی زبردست باری کھیلی۔سیریز اور اس میچ کے آخری اوور میں ایک بار پھر سیسنی خیر مقابلہ ہوا۔پاکستان کو جیت کے لیے ۵ بالوں پر صرف ایک رن درکار تھا کہ تبھی مصباح ایک آسان کیچ تھما بیٹھے۔کالی آندھی کو ایک بار پھر ٹائی کی امید جاگی ۔پر سعید اجمل کے بلے نے کمال دکھایا اور فتح پاکستان کی جھولی میں آ گری۔
اس سیریز میں ایک بار پھر پاکستانی اسپنرز کا جادو سر چڑھ کر بولا۔پر عرفان اور جنید کی کاکردگی دیدنی تھی۔ان دونوں کی برق رفتار گیندوں نے ویسٹ انڈین بلے بازوں کو ٹک کر نہ کھیلنے دیا۔عرفان کی چند گیندوں نے تو سب کو مارشل کی یاد دلوادی۔
پاکستان کے اس کمبینیشن نے کالی آندھی کو تو ٹھکانے لگا دیا پر کیا یہ ٹیم دنیائے کرکٹ کی باقی ٹیموں کے خلاف بھی یہ کارکردگی دوہرا سکے گی یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔کیونکہ ہم جب بھی آسٹریلیا یا جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں سے مقابلے کی لیے اترنے ہیں تو ہمیں ٹیم میں اعتماد نظر نہیں آتا۔کیا پاکستان آسٹریلیا کی سرزمین پر بھی ایسی پرفارمنس دکھا پائے گا؟ اس کا فیصلہ تو ۲۰۱۵ کا ولڈ کپ کرے گا۔ اس کے ساتھ حفیظ اور وہاب ریاض کی پرفارمنس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔حفیظ کے پاس ٹی ۲۰ کی کپتانی بھی ہے لہذا ان کا فارم میں آنا بہت ضروری ہے۔ آنے والی ٹی ۲۰ سیریز حفیظ کی لیے فارم کی بہالی کا اچھا موقع ہے۔ورنہ ۲۰۱۴ کے ٹی ۲۰ کپ کی کپتانی کا تاج کسی اور کے سر بھی سج سکتا ہے۔۔۔۔،،
از
طہ لیل