عید کا دن۔۔۔خوشی کا دن ۔۔۔میل جول کا دن۔۔۔آپ کے ذہن میں ضرور یہی ہوگا ۔پر ہمارے لیے عید ہی کا دن سال کا سب سے برا دن ثابت ہوتا آیا ہے۔عید کے روز آفات کا سلسلہ علی الصبح ہی شروع ہو جاتا ہے۔پہلے پہل عید نماز پرچند ” بھلکڑ انکلز” سے سامنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سےان میں ہر ایک گجنی کے عامر خان کی طرح واقع ہوا ہے۔ہر عید پر وہی گھسےپٹے سوالات اور سستی جگتیں ۔
حسب معمول بھلکڑ انکل کا پہلا سوال، اچھا تو بیٹا آاجکل کیا چل رہا ہے ؟
بس انکل انجینیئرنگ کر رہا ہوں
کیوں بھائی صاحب ذ ادے ، اچھے خاصے لائق فائق معلوم ہوتے ہو ۔ڈاکٹری میں داخلہ نہیں ملا کیا ؟
نہیں انکل ریاضی میں نمبر کم تھے اس لیے ڈاکٹری میں داخلہ نہیں مل سکا
ایسے انکل اپنے علم و فضل کی جھوٹی داستانیں سنا کر عید کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔اوپر سے بیسیوں مرتبہ اپنا تعارف کروانا پڑتا ہے ۔کچھ تو ایسے بے مروت واقع ہوئے ہیں کہ عید پر پہچاننے ہی سے انکار کر دیتے ہیں۔
ارے انکل کیسے ہیں ؟
آ آ آ آ ۔۔۔ ٹھیک ٹھاک ۔۔۔آ آ آ آ آ۔۔۔ بیٹا معاف کرنا میں نے پہچانا نہیں
ایسے میں چپ چاپ سرک لینے ہی میں عافیت ہوتی ہے۔چند ایسے دردناک انداز میں گلے ملتے ہیں کہ جسم کے ایک ایک انگ سے درد کی صدائیں بلند ہوتی ہے۔اور ہمارا نازک تن بدن تڑپ اٹھتا ہے۔
عید نماز کے فوراً بعد مشکل ترین مرحلے کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔۔جی ہاں قصائی کی تلاش۔۔۔۔چند گھنٹوں بعد ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ گویا ہم اس دنیا کے فارغ ترین شخص ہیں جبکہ تمام قصائی حضرات مصروف ترین اشخاص ہیں۔جب منت سماجت کرکے انہیں گھر لے آئیں تو ان کی نگرانی کرنا بھی ایک مشقت طلب کام ہے۔تین چار قصائیوں پر مشتمل ایک پوری ٹیم آتی ہے۔ایک استاد،ایک شاگرد جبکہ بقیہ صرف چائے پانی کا خرچہ بڑھانے اور بوٹیاں چرانے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔
مگر کیا کریں عید کے روز ان کی بھی عزت کرنی پڑتی ہے۔ورنہ تو معاشرہ ان کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا،پر قصائی بھی پورے سال کا بدلہ ایک ہی دن میں اتار لیتے ہیں۔آپ ان پر حکم چلانے کے بارے میں سوچیئے گا بھی مت ، ادھر آپ نے ناراضی کا اظہار کیا ادھر وہ اپنی سائیکل پر بیٹھ کر اڑن چھو ہو گئے۔ لہذا نہایت پیار ، محبت اور خلوص کے ساتھ ان کی خاطر تواضع کرنی پڑتی ہے۔
اس دوران رشتےداروں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ہمارے رشتے داروں کے بھی عجب انداز ہیں۔سب سے پہلے "شوخلے انکل ” کی آمد ہوتی ہے جنہیں اپنے پیسے کے سوا اور کچھ معلوم نہیں۔۔آتے ہی با آواز بلند اپنے آنے کا اعلان کرتے ہیں جیسے کہ ہم اندھے اور بہرے ہیں۔
ارے بھائی عید مبارک عید مبارک۔۔۔بس بس ہم ذرا جلدی میں ہیں ۔کیا کریں صاحب عید کا دن جو ہے ۔۔۔ارے نہیں نہیں بس کھانے کے لیے کچھ مت لانا تکلف کی ضرورت نہیں ہے
نہیں انکل کباب تو ضرور کھانے ہوں گے
ارے اچھا چلو اتنا اصرار کر رہے ہو تو کھائے لیتے ہیں
اس کے بعد گھر میں موجود کھانے کے ہر آئیٹم کو ٹھونس ٹھونس کر کھاتے ہیں۔۔۔۔اب ہر مہمان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے کپڑوں کی تعریف کی جائے۔
انکل بڑے اچھے لگ رہے ہیں آج تو ماشا اللہ
ارے ۔۔۔ہاہاہاہاہا ۔۔۔ہاں بس یقین جانو اس مرتبہ تو مہنگائی نے کمر توڑ کر رکھ دی بڑی مشکل سے چار پانچ جوڑے ہی بنائے ہیں وہ بھی بس دس دس ہزار کے ۔۔۔بس ہم نے سوچا بھائی تن ہی تو ڈھا نپنا ہے نا۔۔۔
اب بندہ ان سے پوچھے کہ کپڑوں کی ریٹ لسٹ دینے کی کیا ضرورت تھی اور اتنا بڑا تن پالنے کی ضرورت ہی کیا ہے جو دو تین ہزار سے ڈھک نہ سکے۔ پر کیا کریں ازراہ اخلاق آپ کو ان کی ہاں میں ہاں ملانی ہی پڑتی ہے۔ اس کے بعد وہ آپ کو اپنے بکرے کی کہانیوں سے پکاتے ہیں۔۔۔
بس آخری منڈی پر چلا گیا میں تو۔۔۔۔جاتے ہی سفید رنگ کے ایک اونچے بکرے پر نظر پڑی۔بس ٹھان لی کہ آج تو اسے گھر لے کر ہی جائیں گے ۔منہ بولے دام دیے اور اسے گھر لے آئے۔ پر رات ہی کو اس کی طبیعت نا ساز ہو گئی۔دراصل بچوں نے اسے جڑی بوٹیاں کھلا دیں۔۔۔ بس صاحب ہمارے تو پسینے چھوٹ گئے۔اپنے بیس ہزار ڈوبتے دیکھے توجھٹ سے ڈاکٹر کو بلا بھیجا ۔ڈاکٹر نے دوا دی پر یقین جانئیے پوری رات بکرے کے ساتھ کھڑے رہےکہ ادھر وہ آخری سانس لینے کا ارادہ کرے اور ادھر ہم اس کی گردن پر چھری پھیر دیں۔۔پر شکر خدا کا ابھی تک تو زندہ ہے پر اب بھی اپنے بڑے لڑکے کو اس کی نگرانی پر لگا کر آئے ہیں ۔۔کیا کریں آخر قربانی جو کرنی ہے۔”
ان کی داستانیں سننا ٹیسٹ میچ کھیلنے کے مترادف ہے جس میں دس کھلاڑی اپنی باری کے انتظار میں پانچ دن دھوپ میں جلتے رہتے ہیں جبکہ ایک کھلاڑی پچ پر جا کر سب کی باری ضائع کر دیتا ہے۔ خیر بات چیت کے دوران میز پر موجود ہر شے کا خاتمہ کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔جب یہ یقین ہو جائے کہ اب کھانے لے لیے اور کچھ باقی نہیں تو ایک مرتبہ پھر با آواز بلند اپنے جانے کا اعلان کرتے ہیں ۔
جاتے جاتے بھی قصائیوں کی نگرانی اور سری پائے کی حفاظت کے طریقے مفت میں بتا جاتے ہیں۔جبکہ اس دوران قصائی اپنی کارروائیوں میں مصروف رہتے ہیں اوربوٹیوں کی ہیرا پھیری اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔
اس کے بعد دن کا سب سے بھیانک حصہ آنٹی اور ان کے کمینے بچے "ببلو” کی آمد سے شروع ہوتا ہے۔چند بچے پیدائشی طور پرشرارتی ہوتے ہیں اور ان کی معصومانہ حرکتوں پر پیار آتا ہے۔پر چند بچے فطری طور پر کمینے ہی پیدا ہوتے ہیں اور جہاں جاتے ہیں ہم جیسے شریف النفس لوگوں کی ناک میں دم کر دیتے ہیں۔
آنٹی : اری بہن۔۔۔کیسی ہو ؟ ہائےہائے کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا۔۔۔ دیکھو تو سہی کتنی کمزور ہو گئی ہو۔۔۔۔ ارے لڑکے ادھر آو تم آنٹی سے تو ملو ۔۔۔۔کتنے بڑے ہو گئے ہو تم ہائے۔۔۔
آنٹی کے آنے کاایک ہی فائدہ ہوتا ہے کہ ان کی سستی پرفیوم کی مہک سے پورے گھر کے مچھراور دیگر حشرات الارض بھا گ کھڑے ہوتے ہیں۔رسمی کلمات کے بعد خواتین کا محبوب ترین مشغلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جی ہاں ۔۔۔۔دوسری خواتین کی بد گوئیاں ۔۔۔ادھر آنٹی دوسروں کی گھریلو زندگی کی داستانیں مزے لےلے کر سناتی ہیں اور ادھر ببلو ہمارے ساتھ "پنگے” لینا شروع کر دیتا ہے۔
ببلو : ارے ہیلو انکل بات سنو ذرا
انکل ؟؟؟ ابے تیرے سے پانچ سات سال ہی بڑا ہوں گا میں ۔۔۔۔۔ بھائی بول مجھے
لگتے تو انکل ہی ہو ۔۔۔۔چلو خیر کوئی کولڈ ڈرنک وغیرہ بھی ملے گی یا آج کل ” بچت پیکج ” چل رہا ہے ؟؟؟ ہاہاہاہا
ایسے بچوں کی ہنسی سن کر جتنا سرور آتا ہےاس کا اندازہ انہی لوگوں کو ہے جن کا کبھی ایسے بچوں سے پالا پڑا ہو۔
خیر کولڈ ڈرنک لا کر دینے کی دیر تھی کہ نخرے شروع ۔۔۔یہ تو گرم ہے۔۔۔ٹھنڈی پیوں گا میں تو۔۔۔۔ماما دیکھو نا کولڈ ڈرنک چاہیے۔
"ارے نہیں ببلو۔۔۔ نہیں ملےگی بالکل۔۔۔بیٹا گلا خراب ہو جائے گا آپ کا۔۔”
"نہیں ماما چاہیے مجھے ۔۔۔چاہیے ۔۔چاہیے ۔۔۔چاہیے "
ارے ارے اچھا اچھا۔۔بیٹا تم ٹھنڈی کر کے لاو نا کھڑے کیا ہو یہاں۔۔۔ببلو بھی نا بہت ضدی ہے اپنے پاپا کی طرح
ایسے میں چہرے پر جھوٹی مسکان سجائے ہر بے عزتی سہنی پڑتی ہے۔پر ہم بھی دھن کے پکے ہیں ایسے بچوں سے بدلہ لینا ہماری جبلت میں شامل ہے۔ادھر آنٹی اماں کے ساتھ کچن میں گئیں ادھر ہم نے ببلو کے کان کے نیچے کھینچ کر ایک بجائی اور پھر نہایت معصومانہ انداز میں دریافت کرنے لگے
ارے ببلو کیا ہوا ؟؟؟ اوہ مجھے لگتا ہے کہ تمہیں "بابا جی” نےتھپڑ مارا ہے دراصل ہمارے گھر میں ایک بابا جی ہیں جو بھی نیا بندہ آتا ہے وہ اسے تھپڑ مارتے ہیں۔۔۔۔ چپ کر جاو ۔۔۔شاباش ورنہ وہ پھر ماریں گے۔۔
پر ہر مرتبہ ہمیں اپنے کیے پر ندامت اس وقت ہوتی ہے جب ببلو بدلے کی آگ میں ہماری قیمتی اشیاء کا ستیا ناس کرکے انتہائی شاطرانہ لہجے میں کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔”او ہو یہ بابا جی بھی نا”۔۔۔۔۔
آنٹی کے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر ہمیں قصائیوں کی نگرانی پر مامور کر دیا جاتا ہے۔جب بکرا حلال ہو جاتا ہے تو قصائی آپ سے بکرے کی کھال ، پائے اور "سری” وغیرہ لےجانے کے لیے درخواست نہیں ، بلکہ بوری وغیرہ طلب کرتے ہیں ۔ آپ کے انکار پر وہ ہاتھوں ہی میں "سری پائے” اٹھا کر ، آپ کو دو چار سنا کر، گھر سے باہرچلے جائیں گےاور آپ حیرت سے ان کا منہ تکتےرہ جائیں گے۔۔۔
مگر صاحب ذرا غور کیجیئے تو شاید عیداسی کا نام ہے پورا سال آپ جن سے نفرت کرتے ہیں آخر انہی کو سلام کرنا پڑتا ہے۔۔۔لہذا ہم روزانہ خود کو سلام کرتے ہیں تاکہ خود میں قصائیوں کی سی خصوصیات محسوس نہ کریں ۔۔۔آپ بھی خود کو سلام کیا کریں ۔۔۔کیونکہ قصائی کو تو صرف عید ہی پر سلام کریں گے ۔۔۔۔کیوں صحیح کہا نا؟؟
از
طہ لیل
Zabardast brother so nice writing
thanks bhai