آج نجانے بیٹھے بیٹھے کیوں ان کی یاد ستانے لگی۔شاید کسی چیز کی اہمیت و وقعت کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب وہ آپ سے دور ہو۔کچھ ایسی ہی رومانوی داستان ہے ڈی سی صاحب اور ہماری ۔متوسط قد،گندمی رنگت،گردن ذرا جھکی ہوئی،چہرہ عینک کے بوجھ تلے دبا ہوا،پیٹھ پر لٹکا بھاری بھرکم بستہ ،جس میں لیپ ٹاپ کے سواء اور کچھ نہ ہوتا۔یہ ہیں ہمارے ڈی سی صاحب۔ڈی سی صاحب ،جن کا اصل نام تو شاید ہی کسی کو یاد ہو ،ہمارے ہم جماعت اور روم میٹ واقع ہوئے ہیں۔صاحب ہمارے پہلے روم میٹ تھے۔یہ الگ بات ہے کہ اس سے قبل بھی ہم چند احباب کے ساتھ رہے پر معمول یہی ہوتا کہ جب ہم کمرے میں ہوتے تو وہ نہ ہوتے اور جب وہ ہوتے تو ہم نہ ہوتے ، اور اکثر اوقات وہ ہوتے ، ان کے دوست احباب ہوتے اور ہم باہر کی دنیا میں مشغول ہوتے۔کمرے میں تمکن ہمیں ڈی سی کی آمد کے بعد ہی نصیب ہوا۔ڈی سی دراصل انگریزی حروف ڈی اور سی کا مخفف ہے ۔ڈی سے مراد دماغ ہے جبکہ سی سے مراد چوس ہے۔یعنی دماغ چوس۔چند احباب لفظ ڈی سی کی کئی اور تشریحات بھی کرتے ہیں پر ہم ہزار ہا کاوش کے باوجود ،اخلاقیات کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ،انہیں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
پورے ای ایم ای کے لیے یہ بات باعث استعجاب و حیرت تھی کہ ہم نے ڈی سی صاحب کو اپنا روم میٹ آخر کیونکر چنا ؟ ہمیں لوگوں نے ہزار ہا نصیحتیں کیں کہ صاحب تم تو نادان ہو ۔۔ کیوں اپنی جان کے دشمن بنے بیٹھے ہو ؟ تمہیں علم نہیں کہ آٹھ ، دس معصوم تم سے قبل بھی ان کا شکار بن چکے ہیں۔ہوش سے ناخون لو۔ پر کوئی کیا جانے کہ ڈی سی صاحب تو ہمیں اپنی اداوں سے پہلے ہی اسیر کر چکے تھے۔روزانہ شام کی چائے کے وقت کمرے میں آنا ان کا معمول بن گیا ۔ہاتھوں میں "گورمے ” کے تازہ اور لذیذ بسکٹوں کا ڈبہ لیے داخل ہوتے اور نہایت شائستانہ انداز میں اسے ہماری جانب بڑھاتے۔
"والدہ صاحبہ نے تاکید فرمائی تھی کہ انہیں خود بھی جی بھی کر کھانا اور اپنے روم میٹ کو بھی کھلانا۔۔۔اب آپ ہی ہمارے روم میٹ ہیں تو جی بھر کر کھائیے۔”
نہ جانے ان بسکٹوں میں کیسی تاثیر تھی کہ ہم نے ڈی سی صاحب کو اپنا روم میٹ بنانے کی حامی بھر لی اور اس طرح ڈی سی اور ہماری داستان کا آغاز ہوا۔
پہلا دن ہمیشہ کسی بھی داستان کا سب سے یادگار دن ہوا کرتا ہے۔پر ہماری طرف یہ یادگار ہونے کے ساتھ ساتھ کافی دردناک بھی تھا۔رات کا پچھلا پہر تھا،ہم خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ای ایم ای میں سہانے خواب بھی ناپید ہیں۔پر قسمت کبھی کبھار مہربان بھی ہوا کرتی ہے۔ہم ایک حسین خواب میں جانبِ منزلِ مقصود رواں دواں تھے کہ اچانک جیسے زمین تھر تھرانے لگی۔ہم ہنوز خواب ہی میں تھے ۔سمجھے کہ ضرور قیامت برپا ہوگئی ہے۔ہڑ بڑا کر اٹھے۔ذرا غور کیا تو پایا کہ ڈی سی صاحب کا موبائل مرغِ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے اور اس میں سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں نکل رہی ہیں ۔ہماری جان پر بن آئی تھی ادھر ڈی سی صاحب نے نہایت اطمینان سے نیند ہی میں ایک آنکھ کھولی ، موبائل پر ایک مغرورانہ نگاہ ڈالی،ایک بٹن دبایا اور یکایک آنکھ بند کر لی۔۔۔ ہم حیران و پریشان انہیں تکتے رہے۔اب ہمیں کیا خاک نیند آنی تھی ۔کبھی ادھر کروٹ بدلتے کبھی ادھر۔جلد ہی لطف میں اضافہ ہوا اور سماں صاحب کے سریلے خراٹوں سے گونجنے لگا ۔یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا۔دل ہی دل میں ٹھانی کہ صبح ہوتے ہی صاحب سے کہیں گے کہ اپنا سامان باندھو اور چلتے بنو۔انہی ترکیبوں کی تشکیل کر رہے تھے کہ نیند نے ایک بار پھر ہمیں آن گھیرا۔ہمارےمطابق شاید چند ہی سیکینڈ گزرے ہوں گے کہ ایک مرتبہ پھر عذاب کا نزول ہوا۔اس مرتبہ ہم ہرگز حواس باختہ نہ ہوئے اور ڈی سی صاحب کے رد عمل کا انتظار کرنے لگے۔صاحب نے ایک مرتبہ پھر داہنی آنکھ کھولی۔فون کان پر لگایااور مری ہوئی آواز میں مخاطب ہوئے ” جی امی اٹھ گیا ہوں ۔۔۔۔نہیں دو گھنٹے قبل ہی اٹھ گیا تھا۔۔۔۔طبیعت ناساز ہے اس لیے آواز میں جان نہیں۔۔جی نماز پڑھنے ہی لگا ہوں۔۔”
ہم یہ تمام گفتگو نہایت اطمینان سے سنتے رہے اسی انتظار میں تھے کہ جیسے ہی فون بند ہوگا دل کا سارا غبار نکال باہر کریں گےاور اسی وقت صاحب کوچلتا کریں گے۔
فون بند کرتے ہی وہ ہم سے مخاطب ہوئے ” ارے صاحب اٹھیئے وقتِ فجر ہے ۔نماز ادا کیجیئے۔” اب ہم ٹہرے گناہ گار انسان جس نے نماز ادا کرنے کا سوچا تک نہ تھا۔یہ سنتے ہی ہمیں تو جیسےسانپ سونگھ گیا۔چپ سادھے پڑے رہے۔ڈی سی صاحب نے نماز ادا کی اور لیپ ٹاپ کھولا ۔ناشتے کے وقت تک وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہ ہلے۔اس دوران ان کے گھر سے مسلسل کالیں آتی رہیں۔وہ ہر بار یہی جواب دیتے ” جی جی میں مطالعہ کر رہا ہوں۔۔۔”ہمارے لیے تو یہ ڈوب مرنے کا مقام تھا ۔شرمندگی کے مارے انہیں بھلا کیا کہتے ایک تو نمازی تھے اور پھر "باقائدہ مطالعہ کی عادت” ۔۔۔اس راز سے پردہ بعد میں اٹھا کہ جناب علی الصبح فیس بک پر مٹر گشتیاں کیا کرتے۔
یہ ایک دن کا واقعہ نہ تھا۔بلکہ روز کا معمول تھا۔ہر روز تین مرتبہ الارم بجتا ،پھر تین مرتبہ صاحب کے گھر سے کال آتی۔ہزار مرتبہ منت سماجت کی کہ صاحب موبائل کی آواز بند کر دیا کریں یا کم از کم اس قیامت خیز تھر تھراہٹ کو تو لگام دیں جس سے ہمارا دل لرز اٹھتا ہے۔لیکن وہ ہر بار نہایت معصومانہ جواز پیش کیا کرتے کہ صاحب اگر ہم وقت پر کال کا جواب نہ دی٘ں گے تووالدہ صاحبہ پریشان ہوں گی۔کیا آپ ہماری والدہ کی پیشانی کا سبب بننا پسند کریں گے ؟ اب بھلا ہمارے جیسے شریف نفس انسان کا ایسے حالات میں کیا رد عمل ہونا تھا ۔۔چپ چاپ ستم سہتے رہے۔
تعلیم کے معاملے میں صاحب بڑے خوش قسمت تھے۔پورا دن انتہائی انہماک سے فیس بک میں مگن رہتے۔رات کو ہمارے پر زور اصرار پر کتاب اٹھاتے ۔بمشکل دس منٹ کی صبر آزما محنت کے بعد ہم سے مخاطب ہوتے ۔۔۔یہ تو نہایت آسان ہے ہمارا خیال ہے تھوڑا آرام کر لیا جائےتاکہ صبح وقت پر آنکھ کھل جائے۔اس کے بعد وہ ایسے گھوڑے بیچ کر سو جایا کر تے جیسے پورا دن پڑھ پڑھ کر ہلکان ہو گئے ہوں۔پر قسمت کے دھنی تھے۔اکثر اوقات ان دس،پندرہ منٹ میں جو کچھ پڑھتے پرچے میں وہی آتا۔ہمیں ان پر شدید غصہ آتا کہ یہ عجب تماشا ہے پورا دن ہم سر کھپائیں اور پھر بھی سوال وہ آئیں جو صاحب نے تیار کیے ہیں اور اس پر ادائیں یہ کہ ہماری موجودگی میں گھر والوں کوفون پر فخر سے بتایا کرتے ۔۔۔ہاں ،ہاں رومیٹ سے تو بہتر ہی ہو گیا ہے ہمارا پرچہ ۔۔۔بے فکر رہیں۔۔
آگے جاری ہے۔۔۔۔
از
طہ لیل