ہنگو سے ماسکو

آج اتوار کا دن تھا ۔ سکول سے چھٹی کے باعث بچوں کے چہروں پر خوشی و مسرت کے جذبات واضح تھے۔اگر آپ بھی اپنے ماضی پر ایک نظر دوڑائیں تو سکول کےزمانے میں اتوار کا دن یقینا٘ آپ کے لیے بھی باعث مسرت رہا ہوگا۔اوپر سے سردیوں کی میٹھی میٹھی دھوپ میں چھٹی کا مزہ کچھ اور ہی دوبالا ہوگیا تھا۔چند بچے آپس میں اٹکھیلیاں کرتے ہنستے کھیلتے جا رہے تھے ۔ وہ اس سہانے دن کا بھرپور فائدہ آٹھا نا چاہتے تھے۔وہ اسی سوچ میں مگن تھے کہ آخر کون سا کھیل کھیلا جائے۔اسی اثنا میں ان میں سے ایک کی  نظر دور پڑے ایک کھلونے پر پڑی۔انسانی بچوں کی جبلت میں یہ بات شامل ہے کہ ہر شے کی تحقیق کی جائے۔اس بچے نے اپنے دوستوں کو آواز لگائی سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔اتوار کا دن ،سہانا موسم، کھیل کود کی چاہت اور کھیلنے کا سامان سامنے ۔۔۔ایک معصوم کے لیے بھلا اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا تھا ۔ وہ سب اس کھلونے کی طرف لپکے پر وہ بد نصیب یہ نہ جانتےتھے کہ ان کی قسمت میں کھیل کود نہیں لکھا تھا ۔ اس بے حس قوم نے تو ان کو خون کی ہولی کے لیے پیش کر دیا تھا ۔ ایک اور دھماکہ اور ایک بار پھر بد نصیب پاکستانی ماوں کی گودیں اجڑ گئیں۔۔۔۔ ان معصوموں کی ہنسی ، چیخوں اور آہ وزاری میں بدل گئی۔

Image

میرے لیے یہ خبر کچھ زیادہ معنی خیز نہ تھی۔ صیح سویرے ” اموات نامہ ” سن کر افسوس کرنا تو اب ایک معمول بن چکا ہے۔ پاکستانی قوم اب صدمات برداشت کر کر کے ، صدمے کی کیفیت ہی بھلا بیٹھی ہے۔کبھی بوڑھا تو کبھی جوان روزانہ چار پانچ کا جنازہ اٹھانا تو اب جیسے روایت ہے۔میں بھی خبرنامہ سن کر معمولات زندگی میں الجھ گیا۔ اس دوران مزمتی اور تعزیتی بیانات کی بوچھاڑ جاری رہی۔سب نے دہشتگردوں کو خوب سنائیں اور انہیں برباد کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے۔

شام ہوئی۔میں معمول کے مطابق اپنے والد صاحب کے ساتھ ۸ بجے کا خبرنامہ سننے بیٹھا۔ چند ایک  خبروں کے بعد ، جن میں آئی سی سی کے قوانین میں تبدیلی کی خبر بھی شامل تھی ، آخر ان معصوموں کی خبر کی باری آئی۔ میں ایک بار پھر استغفار کہ کر آگے بڑھنا چاہتا تھا پر اگلی ہی خبر نے میرے احساسات کو جھنجوڑ کر رکھ  دیا۔ میری آنکھوں میں بلا ساختہ آنسو آگئے اور میں اسی سوچ میں کمرے سے باہر چلا گیا ۔ میں اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہتا تھا پر دل کی بات قلم کے رستے اس کورے کاغذ پر آگئی۔خبر یہ تھی کہ ماسکو میں بچوں کے لیے  تفریحی میلہ منعقد کیا گیا جس میں بچوں نے برف کے رنگ برنگے مجسمے  بنا کر خوب موج مستی کی ۔

اب ذرا  ایک لمحے کے لیے ٹھہریے اور سوچیئے۔۔۔۔۔۔ ماسکو کے بچوں کے لیے بھی یہ وہی اتوار کا دن تھا، وہی موسم ، وہی کھیلنے کی چاہ ، وہی دوستوں کے  ساتھ ہنسی مذاق ، وہی معصومیت ، پر انجام یکسر مختلف۔۔۔۔ وہ ماسکو کے پچے تھے اور یہ ہنگو کے۔ ان کے بڑوں نے ان کے لیے میلہ لگایا اور ہم نے اپنے بچوں کو بم سے  کھیلنے کے  لیے چھوڑ دیا۔ وہ اپنے گھروں میں خوشیاں اور محبتیں لے گئے اور ہم اپنے بچوں کے لا شے لے آئے۔کیا ہمارے بچوں کا حق یہ نہ تھا کہ ان کو بھی ہنسی خوشی جینے دیا جاتا ؟؟؟

Image

پر قابل غور بات تو یہ ہے کہ ہم تو شریعت کے نفاذ کے لیے نکلے ہیں جبکہ ماسکو والے تو کافرانہ نظام کے  پیروکار ہیں ۔ ان لوگوں سے سوال یہ ہے کہ کیا بچوں کو مار کر نظام محمدی (ص) نافذ کیا جائے گا؟ میں اسلامی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتا ہوں تو مجھے فتح مکہ نظر آتی ہے ، فتح روم و فارس نظر آتی ہے، دنیا پر مسلمانوں کا عروج و غلبہ نظر آتا ہے ۔ پر کہیں بھی "کھلونا بم” نظر نہیں آتا۔ کوئی آئے اور مجھ جیسے کافر کو بتائے کہ کب اور کس زمانے میں شریعت محمدی (ص) معصوموں کی جان لے کر نافذ ہوئی ہے؟ وہ ماسکووالے کافر ہی سہی پر اسلامی اقدار پر چلنے والے تو  وہ ہیں ۔ قرآن نے ہمیں جو درس امن دیا ہے اس پر عمل پیرا تو وہ نظر آتے ہیں۔ تم لوگ تو مسلمان کیا انسان کہلانے کے قابل بھی نہیں اگر اتنا ہی شوق ہے اسلام کے نفاذ کا تو پہلے خود کو تو مسلمان کرو۔۔ کیا تم نہیں جانتے کہ ” جو رحم نہیں کرتا ، اس پر رحم نہیں کیا جائے گا”۔ کیا یہ بات تمہارے علم میں نہیں کہ ” دین میں کوئی جبر نہیں”۔ اگر جبرا٘ ہی ایمان پھیلانا مقصود ہوتا تو خدا خود لوگوں کے دلوں میں ایمان ڈال دیتا پر خدا نے انسان کو خود یہ حق و اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے صحیح یا غلط رستہ اختیار کرے ۔ پھر بھلا ہم کون ہوتے ہیں انسانوں سے یہ حق و اختیار چھیننے والے؟؟

ایسے ظالموں کو سبق سکھانے کے لیے قوم کو متحد ہونا پڑتا ہے پر ہماری قوم تو ابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائی کہ یہ جنگ ہماری ہے بھی یا نہیں ؟ یہ جنگ جس کی بھی تھی پر اب ہم اس میں مر رہے ہیں ۔ آخر کب تک ہم اسی طرح لاشیں ا ٹھا ئیں گے؟ آخر کب وہ وقت آئے گا جب ہنگو کے بچے بھی ماسکو کے بچوں کی طرح  آزادی سے اپنی زندگی جی پا ئیں گے؟ دس سال کی ذلت  آمیز جنگ کے بعد بھی اگر ہم اپنی قوم کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں تو بہتر یہی ہے کہ سب پاکستانیوں کو ایک ہی بار ختم کر دیا جائے ۔۔۔ روز گھٹ گھٹ کر جینے سے تو یہی بہتر ہے ۔

میرے بے معنی الفاظ اور بے ربط جملے اس بات کے عکاس ہیں کہ اب ہم لاشیں اٹھا ٹھا کر تھک چکے ہیں۔ اب ہمارے بازوں میں اور لاشیں اٹھا نے کی سکت باقی نہیں ۔۔ خدارا پاکستانیوں پر رحم کرو ۔ مذاکرات کرو یا آپریشن پر اس سب کو اب  ختم کرو ۔ ہمارے بچوں کو جینے دو ۔ آپس میں الجھنے کی بجائے اپنے دشمن کا مل کر خاتمہ کرو ۔آپس کا اتحاد ہی امن کا ضامن ہے۔۔۔۔۔۔۔

وسلام

طہ لیل