امید سحر کی بات سنو

شیر خان کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔اس کی نظروں کے سامنے وہ تمام مناظر گھومنے لگے جن میں ان خبیث لوگوں نے اس کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔نجانے کتنے دنوں سے وہ اس موقع کی تلاش میں تھا ۔آج اپنا شکار سامنے دیکھ کر وہ جذباتی ہو گیا ۔ اس کا چہرا غصے سے سرخ ہو چکا تھا۔ پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک نوجوان، جس کا انداز مغربی معلوم ہوتا تھا اپنی مستی میں مست کچے رستے پر چلا آ رہا تھا۔ کانوں میں ہینڈذ فری لگاَئے،کندھے پر بستہ لٹکائے،  وہ اپنے انجام سے بے خبر شیر خان کے قریب آتا جا رہا تھا۔ وہ اس بات سے قطعی طور پر انجان تھا کہ کوئی آج اپنا بدلہ لینے آیا ہے۔

ابھی وہ جھاڑیوں کے پاس ہی پہنچا تھا کہ تبھی شیر خان نے اسے دبوچا اور خنجروں کے وار سے چند سکینڈ میں اس کا کام تمام کر دیا۔شیر خان نے نوجوان کو خون میں لت پت دیکھا تو نفرت آمیز انداز میں مسکرایا اور اس کی لاش پر تھوکا ۔ وہ جوش فتح میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرنے ہی لگا تھا کہ تبھی اسے  قرآنی آیات کی آواز سنائی دی۔شیر خان ایک دم سہم گیا۔ آواز انتہائی خفیف تھی مگر سناٹے کے باعث صاف سنائی دیتی تھی۔وہ سمجھ نہ پایا۔اس کی نظر ہینڈذ فری پر پڑی ۔یہ آواز مقتول نوجوان کے ہینڈذ فری میں سے آ رہی تھی۔ شیر خان کو اپنے حواس پر یقین نہ آیا۔ اس نے نوجوان کو وہیں چھوڑا اور اس کا بستہ اور موبائل اٹھا کر جھا ڑیوں میں تیزی سے غائب ہو گیا۔

کافی دور نکل آ نے پر وہ ایک درخت کے سائے تلے جا بیٹھا۔اس کے چہرے کے تاثرات یکسر بدل چکے تھے۔غصے اور نفرت کی جگہ اب حیرت اور سکتے نے لے لی ۔موبائل سے قرآنی  آیات کی تلاوت مسلسل اس کے کانوں میں پڑ رہی تھی۔وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر موبائل کو دیکھ رہا تھا۔وہ اس آلے کے متعلق کچھ زیادہ علم نہ رکھتا تھا اس لیے اس نے نوجوان کے بستے کی طرف توجہ مرکوز کی۔بستے سے کچھ ادویات اور چند پمفلٹ برآمد ہوئے جن پر معزور بچوں کی تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ وہ زیادہ پڑھا لکھا تو نہ تھا پر لفظ ” پولیو ” سے بخوبی آشنا تھا ۔ اسی بیماری کے باعث تو اس کا بھائی معذوری کی زندگی گزارنے  پر مجبور ہوا تھا۔ چند کاغذات پر مقتول نوجوان کی تصویر کے نیچے اس کا نام ، محمد علی عثمان، درج تھا۔ ان ناموں سے تو شیر خان بخوبی آشنا تھا۔ انہی کا واسطہ دے کر تو اس سے یہ سب قتل و غارت کروائی جا رہی تھی۔

” جس نے ایک انسان کا قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا "

موبائل سے گونجتی ان آیات نے شیر خان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اس کی آنکھوں میں بلاساختہ آنسو آگئے۔ وہ اپنے کیے پر شرمندہ تھا۔اس نے اپنے ہی مسلمان بھائی ، جو کہ اسی کے فائدے کے لیے آیا تھا ،اسے بے دردی سے مار ڈالا۔وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔وہ توبہ کرنے کے قابل بھی نہ رہا تھا۔پرخدا نے شیر خان کے سامنے دو تقدیریں رکھی تھیں ۔ جیسا کہ خدا ہم سب کے سامنے اپنی تقدیریں بکھیر کر رکھتا ہے اور پھر ہمیں اس بات کا اختیار و ارادہ دیتا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے ان راستوں میں سے کسی ایک راستے کو چن لیں۔ اب یہ شیر خان پر منحصر تھا کہ وہ کس رستے کو چنتا ہے ۔وہ جو اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ بنے یا پھر وہ جو ایک اور معصوم انسان کی جان لے لے۔

ناظرین صبح کے آٹھ بجے ہیں اور ہم آپ سب کو ایک انتہائی اہم خبر دیں گے ۔۔۔ ظالمان لیڈر شیر خان نے اپنے آپ کو تمام ساتھیوں سمیت حکومت پاکستان کے حوالے کر دیا ہے ۔۔۔۔ناظریں ہم آپ کو ایک بار پھر خبر دیں گے۔شیر خان نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیر خان کے چہرے کے تاثرات بتاتے ہیں کہ اب وہ اصل اسلام کو پہچان چکا ہے۔۔۔۔

اور بےشک اسلام امن و سلامتی کا دین ہے

از

طہ لیل