میری نظر میں ہماری قوم کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم اعلی درجہ کے "شخصیت پرست” واقع ہوئے ہیں ۔ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہمیں تو بس اس شخصیت کا دفاع کرنا ہے جسے ہم یا ہمارے باپ دادا اپنا "گڈریا” تسلیم کر چکے ہیں۔
اندھی تقلید نے اس قوم کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہےکہ چاہے بات کھیل کی ہو، مذہب کی ہو یا سیاست کی ، عقل اور دلیل کے مقدس ایوانوں سے فیصلہ لینے کی بجائے ہم ہمیشہ جذبات اور روایات کے فرسودہ احکامات کی پیروی کو ترجیح دیتے ہیں۔کوئی عمران کا جیالا ہے تو کوئی نواز کا ،کسی کو مشرف کا درد ستاتا ہے تو کوئی الطاف بھائی کو دیوتا مانتا ہے۔کسی کو آج تک بھٹو یاد آتا ہے تو کوئی مرد حق کے نعرے لگاتا ہے۔حتی کہ اگر آپ ابھی آفریدی اور مصباح کی بات چھیڑ دیں تو یہ قوم لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو لہو لہان کر دے۔کوئی یہ نہیں جانتا کہ ان شخصیات نے جو کارنامے کیے وہ کیا ہیں اور یہ کہ جس کی مخالفت میں آپ اخلاقیات تک کو بھلا بیٹھے ہیں وہ بھی پاکستان کی خاطر لڑا ہے۔ اگر آپ اس کے کسی ایک طرز عمل سے اختلاف کر رہے ہیں تو اس کی اچھائی کو تسلیم بھی کریں۔
یہ بات آخر ہم کیوں نہیں سمجھ پا رہے کہ اس دنیا میں فرشتے نہیں بستے،آپ کا مخالف بھِی "سچ” بول سکتا ہے اور آپ کا لیڈر بھی "جھوٹ” کا سہارا لے سکتا ہے۔ہم طالبان کو "شدت پسند” قرار دیتے ہیں لیکن افسوس کہ خود اپنی ذات میں چھپے بیٹھے شدت پسند کو کوئی نہیں پہچان پا رہا۔ جمہوریت محض "ووٹ” ڈالنے کا نام نہیں ، بلکہ قدامت پرستی اور شخصیت پرستی کی انسانیت سوز روایات کو توڑ ڈالنے کا نام ہے۔
انقلاب خون خرابے کانام نہیں بلکہ انقلاب قلب و دماغ کی تبدیلی کا نام ہے ۔۔۔ ہنگامے سے شاید حکومت کا تختہ تو الٹ جا ئے ، جو کہ ضروری بھی معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد کا منظر کیا ہوگا؟ مان لیا کہ ہم نے "لا” کی منزل تو طے کر لی لیکن "الا” کی خبر کسے ہے؟ "الا” کو پہچانے بغیر ہم یقینا تباہ و برباد ہو جائیں گے۔
حقیقی انقلاب اور تبدیلی تبھی ممکن ہوگی جب ہمارے قلب و دماغ سے شخصیت پرستی کے آسیب ذدہ محلات کا صفایا ہو جائے گا۔ یہ محض خواب خیالی نہیں ،ایسا انقالاب محمد( ص) کے ہاتھوں شرمندہ تعبیر ہوا اور دنیا نے اسے تسلیم کیا۔ اس بات کا اعتراف کسے نہیں کہ مکہ کے خانہ بدوش ، قلب و دماغ کی تبدیلی کے باعث خدا ئے واحد کا پرچم لے کر اٹھے اور پوری دنیا پر چھا گئے۔ اس فردوس گم گشتہ کو ہمیں ڈھونڈ لانا ہوگا ۔اور ایسا تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے آپ کو شخصیت پرستی سے آزاد کریں اور اپنے کردار اور خیالات کو قرآن کے قالب میں ڈھالیں۔
از
طہ لیل