ڈی سی -پہلا حصہ

آج نجانے بیٹھے بیٹھے کیوں ان کی یاد ستانے لگی۔شاید کسی چیز کی اہمیت و وقعت کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب وہ آپ سے دور ہو۔کچھ ایسی ہی رومانوی داستان ہے ڈی سی صاحب اور ہماری ۔متوسط قد،گندمی رنگت،گردن ذرا جھکی ہوئی،چہرہ عینک کے بوجھ تلے دبا ہوا،پیٹھ پر لٹکا بھاری بھرکم بستہ ،جس میں لیپ ٹاپ کے سواء اور کچھ نہ ہوتا۔یہ ہیں ہمارے ڈی سی صاحب۔ڈی سی صاحب ،جن کا اصل نام تو شاید ہی کسی کو یاد ہو ،ہمارے ہم جماعت اور روم میٹ واقع ہوئے ہیں۔صاحب ہمارے پہلے روم میٹ تھے۔یہ الگ بات ہے کہ اس سے قبل بھی ہم چند احباب کے ساتھ رہے پر معمول یہی ہوتا کہ جب ہم کمرے میں ہوتے تو وہ نہ ہوتے اور جب وہ ہوتے تو ہم نہ ہوتے ، اور اکثر اوقات وہ ہوتے ، ان کے دوست احباب ہوتے اور ہم باہر کی دنیا میں مشغول ہوتے۔کمرے میں تمکن ہمیں ڈی سی کی آمد کے بعد ہی نصیب ہوا۔ڈی سی دراصل انگریزی حروف ڈی اور سی کا مخفف ہے ۔ڈی سے مراد دماغ ہے جبکہ سی سے مراد چوس ہے۔یعنی دماغ چوس۔چند احباب لفظ ڈی سی کی کئی اور تشریحات بھی کرتے ہیں پر ہم ہزار ہا کاوش کے باوجود ،اخلاقیات کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ،انہیں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
پورے ای ایم ای کے لیے یہ بات باعث استعجاب و حیرت تھی کہ ہم نے ڈی سی صاحب کو اپنا روم میٹ آخر کیونکر چنا ؟ ہمیں لوگوں نے ہزار ہا نصیحتیں کیں کہ صاحب تم تو نادان ہو ۔۔ کیوں اپنی جان کے دشمن بنے بیٹھے ہو ؟ تمہیں علم نہیں کہ آٹھ ، دس معصوم تم سے قبل بھی ان کا شکار بن چکے ہیں۔ہوش سے ناخون لو۔ پر کوئی کیا جانے کہ ڈی سی صاحب تو ہمیں اپنی اداوں سے پہلے ہی اسیر کر چکے تھے۔روزانہ شام کی چائے کے وقت کمرے میں آنا ان کا معمول بن گیا ۔ہاتھوں میں "گورمے ” کے تازہ اور لذیذ بسکٹوں کا ڈبہ لیے داخل ہوتے اور نہایت شائستانہ انداز میں اسے ہماری جانب بڑھاتے۔
"والدہ صاحبہ نے تاکید فرمائی تھی کہ انہیں خود بھی جی بھی کر کھانا اور اپنے روم میٹ کو بھی کھلانا۔۔۔اب آپ ہی ہمارے روم میٹ ہیں تو جی بھر کر کھائیے۔”
نہ جانے ان بسکٹوں میں کیسی تاثیر تھی کہ ہم نے ڈی سی صاحب کو اپنا روم میٹ بنانے کی حامی بھر لی اور اس طرح ڈی سی اور ہماری داستان کا آغاز ہوا۔
پہلا دن ہمیشہ کسی بھی داستان کا سب سے یادگار دن ہوا کرتا ہے۔پر ہماری طرف یہ یادگار ہونے کے ساتھ ساتھ کافی دردناک بھی تھا۔رات کا پچھلا پہر تھا،ہم خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ای ایم ای میں سہانے خواب بھی ناپید ہیں۔پر قسمت کبھی کبھار مہربان بھی ہوا کرتی ہے۔ہم ایک حسین خواب میں جانبِ منزلِ مقصود رواں دواں تھے کہ اچانک جیسے زمین تھر تھرانے لگی۔ہم ہنوز خواب ہی میں تھے ۔سمجھے کہ ضرور قیامت برپا ہوگئی ہے۔ہڑ بڑا کر اٹھے۔ذرا غور کیا تو پایا کہ ڈی سی صاحب کا موبائل مرغِ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے اور اس میں سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں نکل رہی ہیں ۔ہماری جان پر بن آئی تھی ادھر ڈی سی صاحب نے نہایت اطمینان سے نیند ہی میں ایک آنکھ کھولی ، موبائل پر ایک مغرورانہ نگاہ ڈالی،ایک بٹن دبایا اور یکایک آنکھ بند کر لی۔۔۔ ہم حیران و پریشان انہیں تکتے رہے۔اب ہمیں کیا خاک نیند آنی تھی ۔کبھی ادھر کروٹ بدلتے کبھی ادھر۔جلد ہی لطف میں اضافہ ہوا اور سماں صاحب کے سریلے خراٹوں سے گونجنے لگا ۔یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا۔دل ہی دل میں ٹھانی کہ صبح ہوتے ہی صاحب سے کہیں گے کہ اپنا سامان باندھو اور چلتے بنو۔انہی ترکیبوں کی تشکیل کر رہے تھے کہ نیند نے ایک بار پھر ہمیں آن گھیرا۔ہمارےمطابق شاید چند ہی سیکینڈ گزرے ہوں گے کہ ایک مرتبہ پھر عذاب کا نزول ہوا۔اس مرتبہ ہم ہرگز حواس باختہ نہ ہوئے اور ڈی سی صاحب کے رد عمل کا انتظار کرنے لگے۔صاحب نے ایک مرتبہ پھر داہنی آنکھ کھولی۔فون کان پر لگایااور مری ہوئی آواز میں مخاطب ہوئے ” جی امی اٹھ گیا ہوں ۔۔۔۔نہیں دو گھنٹے قبل ہی اٹھ گیا تھا۔۔۔۔طبیعت ناساز ہے اس لیے آواز میں جان نہیں۔۔جی نماز پڑھنے ہی لگا ہوں۔۔”
ہم یہ تمام گفتگو نہایت اطمینان سے سنتے رہے اسی انتظار میں تھے کہ جیسے ہی فون بند ہوگا دل کا سارا غبار نکال باہر کریں گےاور اسی وقت صاحب کوچلتا کریں گے۔
فون بند کرتے ہی وہ ہم سے مخاطب ہوئے ” ارے صاحب اٹھیئے وقتِ فجر ہے ۔نماز ادا کیجیئے۔” اب ہم ٹہرے گناہ گار انسان جس نے نماز ادا کرنے کا سوچا تک نہ تھا۔یہ سنتے ہی ہمیں تو جیسےسانپ سونگھ گیا۔چپ سادھے پڑے رہے۔ڈی سی صاحب نے نماز ادا کی اور لیپ ٹاپ کھولا ۔ناشتے کے وقت تک وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہ ہلے۔اس دوران ان کے گھر سے مسلسل کالیں آتی رہیں۔وہ ہر بار یہی جواب دیتے ” جی جی میں مطالعہ کر رہا ہوں۔۔۔”ہمارے لیے تو یہ ڈوب مرنے کا مقام تھا ۔شرمندگی کے مارے انہیں بھلا کیا کہتے ایک تو نمازی تھے اور پھر "باقائدہ مطالعہ کی عادت” ۔۔۔اس راز سے پردہ بعد میں اٹھا کہ جناب علی الصبح فیس بک پر مٹر گشتیاں کیا کرتے۔
یہ ایک دن کا واقعہ نہ تھا۔بلکہ روز کا معمول تھا۔ہر روز تین مرتبہ الارم بجتا ،پھر تین مرتبہ صاحب کے گھر سے کال آتی۔ہزار مرتبہ منت سماجت کی کہ صاحب موبائل کی آواز بند کر دیا کریں یا کم از کم اس قیامت خیز تھر تھراہٹ کو تو لگام دیں جس سے ہمارا دل لرز اٹھتا ہے۔لیکن وہ ہر بار نہایت معصومانہ جواز پیش کیا کرتے کہ صاحب اگر ہم وقت پر کال کا جواب نہ دی٘ں گے تووالدہ صاحبہ پریشان ہوں گی۔کیا آپ ہماری والدہ کی پیشانی کا سبب بننا پسند کریں گے ؟ اب بھلا ہمارے جیسے شریف نفس انسان کا ایسے حالات میں کیا رد عمل ہونا تھا ۔۔چپ چاپ ستم سہتے رہے۔
تعلیم کے معاملے میں صاحب بڑے خوش قسمت تھے۔پورا دن انتہائی انہماک سے فیس بک میں مگن رہتے۔رات کو ہمارے پر زور اصرار پر کتاب اٹھاتے ۔بمشکل دس منٹ کی صبر آزما محنت کے بعد ہم سے مخاطب ہوتے ۔۔۔یہ تو نہایت آسان ہے ہمارا خیال ہے تھوڑا آرام کر لیا جائےتاکہ صبح وقت پر آنکھ کھل جائے۔اس کے بعد وہ ایسے گھوڑے بیچ کر سو جایا کر تے جیسے پورا دن پڑھ پڑھ کر ہلکان ہو گئے ہوں۔پر قسمت کے دھنی تھے۔اکثر اوقات ان دس،پندرہ منٹ میں جو کچھ پڑھتے پرچے میں وہی آتا۔ہمیں ان پر شدید غصہ آتا کہ یہ عجب تماشا ہے پورا دن ہم سر کھپائیں اور پھر بھی سوال وہ آئیں جو صاحب نے تیار کیے ہیں اور اس پر ادائیں یہ کہ ہماری موجودگی میں گھر والوں کوفون پر فخر سے بتایا کرتے ۔۔۔ہاں ،ہاں رومیٹ سے تو بہتر ہی ہو گیا ہے ہمارا پرچہ ۔۔۔بے فکر رہیں۔۔

آگے جاری ہے۔۔۔۔

از

طہ لیل

آن لائن

رات قریبا ایک بجے کا وقت ہے۔وہ بے چینی سے کبھی ادھر کروٹ بدلتا ہے توبھی ادھر۔ گویا نیند اس سے روٹھ چکی ہو۔وہ بار بار موبائل فون اپنے تکیے کے نیچے سے نکالتا ہے اور تصدیق کرتا ہے کہ کہیں کوئی میسج یا کال تو نہیں آئی۔وہ ہر پانچ منٹ بعد "وٹس ایپ” پر اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ آیا "وہ” آن لائن ہے کہ نہیں۔کافی دیر گزر چکی ہے وہ آن لائن تو ہے مگر کوئی میسج نہیں کرتی۔اس کے دل میں ایک خفیف سی امید ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی پیغام تو ضرور آئے گا۔یہ آگ یکطرفہ نہیں ہو سکتی وہ دل کو تسلی دیتا ہے۔آہ کہ انتظار موت سے بد تر ہے۔ اسی اثناء میں "وہ” اپنی ڈی-پی تبدیل کرتی ہے ۔ کسی بھنورے کی طرح یہ فورا سے بھی پہلے ڈی-پی کھولتاہے اور دل ہی دل میں مفروضے گھڑنے لگتا ہے۔
"ہاں ، اس سے مراد شاید یہ ہو ۔۔نہیں شاید فلاں بات کا جواب ہو۔۔شاید وہ کچھ کہنا چاہتی ہو”
وہ کش مکش کا شکار ہے ۔بات کرنا بھی چاہتا ہے مگر گھبراتا ہے ۔ کبھی اپنے خاندان سے تو کبھی معا شرے سے ۔ کبھی مذ ہب کے ٹھیکے داروں سے تو کبھی اپنے ماڈرن دوستوں سے۔ وہ ہمت جوٹا کر میسج ٹائپ کرتا ہے مگر اس خوف سے کہ دوست "تاڑو” کہیں گے، گھر والے "بے غیرت” اور وہ "کم تر” ، پھر گھبرا جاتا ہے ۔ وہ بار بار میسج لکھتا ہے اور پھر مٹا ڈالتا ہے ۔ اسے اس سرے کی تلاش ہے جہاں سے ابتداء کی جائے۔ ہم نے ایسا معاشرہ قائم کیا ہے جہاں سیدھی بات کرنا نہایت معیوب ہے وہ کیونکر اسے یک لخت سب کچھ بتا ڈالے؟
وہ ایک بار پھر میسج مٹانے ہی والا تھا کہ "سینڈ” کے بٹن پر غلطی سے ہاتھ لگا ۔ انسان چاہے ہزار رنگ بدلے ۔ اس کا ہر عمل چاہے ذو معنی ہو، مگر اس کی بنائی چیزیں منافق نہیں۔ اب اس میسج کو بھلا کون روک سکتا تھا؟ وہ ایک دم ہڑبڑا کر اٹھا ۔ "یا خدا یہ کیا ہوا؟ میری "ویلیو ڈاون” ہو جائے گی اس کے سامنے ۔۔وہ کیا سوچے کی میرے بارےمیں؟” ابھی وہ اسی پریشانی کے عالم میں تھا کہ جواب موصول ہوا۔انسان کیسا عجیب ہے جو خود اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولتا ہے ۔ ایک لمحہ پہلے جس چہرے پے پریشا نی کے سائے تھے اب اس پے مسرت عیاں تھی۔اس موقع کی تلاش میں اس نے پوری رات گزاری تھی ، جھٹ سے میسج لکھا
"ایک دن میں تین تین بار تصویر تبدیل؟ خیریت ؟”
"ہاں کچھ خاص نہیں۔۔۔بس موڈ پر انحصار کرتا ہے”
"پھر تو تصویر دیکھ کر لگتا ہے کہ موڈ کافی خراب ہے”
"ہاں،انسان زندگی میں مختلف مراحل سے گزرتا ہے ،کبھی خوشی کبھی غم”
"غم کی وجوہات ہوا کرتی ہیں”
"کبھی کبھار وجوہات کی عدم مو جودگی ہی غم کا باعث بنتی ہے”
"سنا ہے غم بانٹنے سے کم ہوا کرتا ہے ؟”
"اس کا انحصار غم بانٹنے والے پر ہے 🙂 ”
"ٹھیک ہے تم جیتی ، ہم ہارے”
"جیت ہمیشہ میری ہی ہوا کرتی ہے p: ”
"یا پھر شاید میں تمہیں ہرانا ہی نہیں چاہتا”
"اچھا ؟ ہم پر اتنی مہربانی کی وجہ ؟ ”
"پھر کبھی بتاوں گا”
"ابھی کیوں نہیں ؟ ”
"ابھی وقت نہیں ”
اس کے بعد طویل خاموشی چھا گئی۔ آہ کہ ہم "ابھی وقت نہیں” اور "اب وقت نہیں” کے درمیان جکڑے جا چکے ہیں۔دونوں اپنی اپنی جگہ سوالات لیے اس بات کے منتظر ہیں کہ پہل کون کرتا ہے۔ ان کا انتظار فضول ۔ ان کا ہر خیال فضول۔ ہم عجب معا شرے میں رہتے ہیں جہاں نفرت کا اظہار کرنا دلیری اور بہادری کا کام سمجھا جاتا ہے ۔جبکہ محبت کرنا ایک جرم ، ایک فرسودہ روایت ۔ اگر کسی کو ہماری بات سے اختلاف ہے تو اپنے محلے یا گھر میں با آواز بلند یہ کہ کر دیکھے کہ ” میں فلاں لڑکی سے نفرت کرتا ہوں” آپ کی آواز پر کوئی کان نہ دھرے گا ۔ مگر ادھر آپ نے محبت کا اظہار کیا ادھر آپ پر کفر ، بے غیرتی اور بے حیائی کے فتوے لگے ۔ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں مگر اپنی بہنوں کو پسند کی شادی کی اجازت نہیں دیتے۔ اور ایسا کرنے والے کو بے غیرت کہتے ہیں۔
آہ کہ ہم نفرت کر کے کتنے عظیم کہلاتے ہیں۔ جوتے کی نوک پر رکھنا اور ” پلے بوائے ” بننا ہمارے مشغلے ہیں۔ چاہے مرد ہو یا عورت دونوں ہی محبت کے جذبے سے عاری ہیں اسی لیے یہ ہمہ وقت غلط روش اختیار کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
دوسری جانب ماڈرن لوگ اظہار محبت کو اپنی شان و شوکت کے خلاف سمجہتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کی نظر میں "پینڈو پن” ہے۔ وہ صرف "فرینڈ شپ” پر یقین رکھتے ہیں۔ ہائے رے محبت تیری قسمت ۔ اس خول کو توڑنا کتنا ہی مشکل ہے ۔ہم لبادے اوڑھے کتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ہمارے دلوں میں چھوٹی چھوٹی خواہشات کا ہونا کتنا معیوب ہے۔مٹی کے ساتھ کھیلنا ، اونچی آواز میں گانا ، بارش کے پانی میں کاغذ کی کشتیاں چلانا کتنے ہی بڑے گناہ ہیں۔ پیسہ ، مکاری ، منافقت کتنے ہی باوقار معلوم ہوتے ہیں۔
صبح کی آذان ہونے والی ہے وہ اب بھی "وٹس ایپ” کھولے اس کا اکاونٹ تکے جا رہا ہے۔ ایک طرف تو وہ اس کے ہمیشہ "آن لائن” رہنے کا خوہش مند ہے تو دوسری طرف وہ کورے کاغذ پر اپنے دل کا حال لکھے جاتا ہے ۔

شخصیت پرستی

میری نظر میں ہماری قوم کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم اعلی درجہ کے "شخصیت پرست” واقع ہوئے ہیں ۔ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہمیں تو بس اس شخصیت کا دفاع کرنا ہے جسے ہم یا ہمارے باپ دادا اپنا "گڈریا” تسلیم کر چکے ہیں۔
اندھی تقلید نے اس قوم کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہےکہ چاہے بات کھیل کی ہو، مذہب کی ہو یا سیاست کی ، عقل اور دلیل کے مقدس ایوانوں سے فیصلہ لینے کی بجائے ہم ہمیشہ جذبات اور روایات کے فرسودہ احکامات کی پیروی کو ترجیح دیتے ہیں۔کوئی عمران کا جیالا ہے تو کوئی  نواز کا ،کسی کو مشرف کا درد ستاتا ہے تو کوئی الطاف بھائی کو دیوتا مانتا ہے۔کسی کو آج تک بھٹو یاد آتا ہے تو کوئی مرد حق کے نعرے لگاتا ہے۔حتی کہ اگر آپ ابھی  آفریدی اور مصباح کی بات چھیڑ دیں تو یہ قوم لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو لہو لہان کر دے۔کوئی یہ نہیں جانتا کہ ان شخصیات نے جو کارنامے کیے وہ کیا ہیں اور یہ کہ جس کی مخالفت میں آپ اخلاقیات تک کو بھلا بیٹھے ہیں وہ بھی پاکستان کی خاطر لڑا ہے۔ اگر آپ اس  کے کسی ایک طرز عمل سے اختلاف کر رہے ہیں تو اس کی اچھائی کو تسلیم بھی کریں۔

یہ بات آخر ہم کیوں نہیں سمجھ  پا رہے کہ اس دنیا میں فرشتے نہیں بستے،آپ کا مخالف بھِی "سچ” بول سکتا ہے اور آپ کا لیڈر بھی "جھوٹ” کا سہارا لے سکتا ہے۔ہم طالبان کو "شدت پسند” قرار دیتے ہیں لیکن افسوس کہ خود اپنی ذات میں چھپے بیٹھے شدت پسند کو کوئی نہیں پہچان پا رہا۔ جمہوریت محض "ووٹ” ڈالنے کا نام نہیں ، بلکہ قدامت پرستی اور شخصیت پرستی کی انسانیت سوز روایات کو توڑ ڈالنے کا نام ہے۔

انقلاب خون خرابے کانام نہیں بلکہ انقلاب قلب و دماغ کی تبدیلی کا نام ہے ۔۔۔ ہنگامے سے شاید حکومت کا تختہ تو الٹ جا ئے ، جو کہ ضروری بھی معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد کا منظر کیا ہوگا؟ مان لیا کہ ہم نے "لا” کی منزل تو طے کر لی لیکن "الا” کی خبر کسے ہے؟ "الا” کو پہچانے بغیر ہم یقینا تباہ و برباد ہو جائیں گے۔
حقیقی انقلاب اور تبدیلی تبھی ممکن ہوگی جب ہمارے قلب و دماغ سے شخصیت پرستی کے آسیب ذدہ محلات کا صفایا ہو جائے گا۔ یہ محض خواب خیالی نہیں ،ایسا انقالاب  محمد( ص) کے ہاتھوں  شرمندہ تعبیر ہوا اور دنیا نے اسے تسلیم کیا۔ اس بات کا اعتراف کسے نہیں کہ مکہ کے خانہ بدوش ، قلب و دماغ کی تبدیلی کے باعث خدا ئے واحد کا پرچم لے کر اٹھے اور پوری دنیا پر چھا گئے۔ اس فردوس گم گشتہ کو ہمیں ڈھونڈ لانا ہوگا ۔اور ایسا تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے آپ کو شخصیت پرستی سے آزاد کریں اور اپنے کردار اور خیالات کو قرآن کے قالب میں ڈھالیں۔

از

طہ لیل